یہ بات بائیس جنوری سنہ 2010 کو پیرس میں امریکی سفارتخانے کی جانب سے امریکی محکمۂ خارجہ کو بھیجے گئے ایک مراسلے میں کہی گئی ہے۔
اس مراسلے میں فرانسیسی حکومت کے پاکستان اور افغانستان پر انٹر ایجنسی سیل کی سربراہ جیسمین زرینینی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان کے خیال میں جنرل کیانی نے’مشرف سے سبق سیکھا ہے‘ اور وہ کھل کر سامنے نہیں آ رہے ہیں۔
تاہم جسیمین زرینینی کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ (جنرل کیانی) پسِ پردہ رہ کر حکومت اور پارلیمان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں جن میں افغان سرحد کے ساتھ واقع قبائلی علاقوں کے لیے پاکستان کی پالیسی کو تبدیل نہ ہونے دینا بھی شامل ہے۔
دستاویز کے مطابق انٹر ایجنسی سیل کی سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جنرل کیانی کیری لوگر بل کے حوالے سے تنازعہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ بل امریکی امداد کو فوج پر بڑھتے ہوئے سویلین کنٹرول سے مشروط کرتا ہے۔
اسی گفتگو میں جسیمین زرینینی نے یہ بھی کہا کہ مغرب نے پاکستان میں پناہ لینے والے افغان طالبان کا صفایا کرنے کے لیے پاکستانی فوج پر دباؤ ڈالنے کا موقع گنوا دیا ہے۔
ان کے مطابق اس کی ایک مثال جلال الدین حقانی ہیں جو کہ بقول ان کے سنہ 2004 میں بطور ایک رہنما سامنے آئے تاہم اس وقت نہ ہی وہ کسی تنظیم کے نمائندہ اور نہ ہی کوئی بڑا خطرہ تھے۔ تاہم جب خلیج سے ملنے والی بڑی رقوم کی بدولت وہ ایک نیٹ ورک قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو اب پاکستانی فوج کے لیے انہیں شکست دینا مشکل ہے چاہے وہ اس کے خواہشمند بھی ہوں۔
مراسلے میں بتایا گیا ہے کہ جیسمین زرینینی کے مطابق حکومتِ فرانس پاکستان سے اسّی کی دہائی میں صرف فوجی سازوسامان کی فروخت پر منحصر تعلقات جیسے تعلقات کی خواہاں نہیں اور وہ چاہتی ہے کہ پاکستان کے ساتھ مضبوط سیاسی تعلقات ہوں اور معاشی اور تجارتی روابط کے علاوہ دونوں ممالک انسدادِ دہشتگردی کے شعبے میں بھی تعاون کریں۔
No comments:
Post a Comment