پاکستان میں امریکی سفیر کے مطابق انہوں نے پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت سے صدر پرویز مشرف کے لیے ان کے عہدے سے علیحدگی سے قبل معافی کی ضمانت طلب کی تھی۔
اسلام آباد میں امریکی سفیر این پیٹرسن نے تیئس اگست دو ہزار آٹھ کے روز بھیجی گئی ایک کیبل میں بتایا کہ انہوں نے پاکستانی فوجی سربراہ، صدر مملکت اور وزیراعظم سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں میں پرویز مشرف کے عہدہ صدارت سے علیحدگی کی صورت میں معافی کی ضمانت حاصل کرنے کی کوشش کی۔
’ہم نے بارہا پاکستانی قیادت سے کہا کہ مشرف کے لیے باعزت ریٹائرمنٹ ہونی چاہیے نہ کہ انہیں ہنکار کر ملک سے بھاگنے پر مجبور کیا جائے‘۔
امریکی سفیر نے پرویز مشرف کے عہدہ صدارت سے استعفیٰ کے ایک ہفتے بعد پاکستان کے تین اہم ترین رہنماؤں سے ملاقاتوں کا احوال بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکمران جماعت کے سربراہ آصف زرداری نے ملاقات کے دوران کہا کہ وہ سابق صدر کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچنے دینے کا عزم رکھتے ہیں۔
امریکی سفیر نے اس موقع پر کہا کہ تحفظ کی ضمانت ہی نے پرویز مشرف کو استعفیٰ دینے پر راضی کیا تھا اور اس لیے انہیں ہلکار کر ملک سے باہر بھاگنے پر مجبور کرنے کے بجائے باعزت ریٹائرمنٹ ہونی چاہیے۔ آصف زرداری نے کہا کہ وہ پہلے ہی امریکہ، برطانیہ اور فوجی سربراہ جنرل اشفاق کیانی کے سامنے پرویز مشرف کو تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں۔
امریکی سفیر کے مطابق انہوں نے فوری طور پر ایسا کرنے کے لیے کہا جس پر آصف زرداری نے جواب دیا کہ پرویز مشرف کے لیے تحفظ اور ضمانت کا اس وقت اعلان کرنے سے صدارتی امیدوار کے طور پر ان کے ووٹ خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ صدر زرداری نے وعدہ کیا کہ عہدہ صدارت سنبھالتے ہی وہ پرویز مشرف کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنے کے علاوہ ان کے لیے صدارتی معافی کا بھی اعلان کر دیں گے۔
پرویز مشرف کے لیے معافی کے بارے میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ اپنی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے امریکی سفیر لکھتی ہیں کہ جنرل کیانی حکومت کی جانب سے سابق صدر کے لیے تحفظ کی فوری ضمانت فراہم نہ کیے جانے پر پریشان دکھائی دیتے تھے۔
انہوں نے بیس اگست کو ایک ملاقات میں کہا کہ انہوں نے حکومتی معافی دلانے کے لیے پرویز مشرف سے وعدہ کر رکھا ہے اور اب انہیں سابق صدر سے ملنے میں خفت محسوس ہو گی۔ اس کے علاوہ انہیں اپنے فوجی ساتھیوں کو بھی اس بارے میں جواب دینا ہوگا۔ جنرل کیانی نے کہا کہ آصف زرداری سابق صدر کے لیے معافی کے معاملے کو ججوں کی بحالی کے بحران کے حل سے نتھی کر کے اسے بے جا طور پر لٹکا رہے ہیں۔
وزیراعظم گیلانی نے امریکی سفیر کو اکیس اگست دو ہزار آٹھ کو ایک ملاقات میں یقین دلایا کہ پیپلز پارٹی سابق صدر مشرف کو تحفظ اور معافی ضرور دے گی لیکن ایسا کرنے کے لیے وقت کا تعین بہت اہم ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ ان کی جماعت انتقام لینا نہیں چاہتی۔ ’بہت سے لوگ کہیں گے کہ ہم نے امریکہ سے ڈیل کر لی ہے۔ اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ایسا کرنا پڑے گا‘۔
لندن میں مقیم سابق صدر پرویز مشرف کے ترجمان نے وکی لیکس میں منکشف ہونے والے ان واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر کی اہمیت کے پیش نظر امریکہ اور دیگر اہم ممالک کو ان کی سلامتی کے بارے میں فکر تھی لیکن پرویز مشرف نے کبھی حکومت پاکستان سے معافی یا تحفظ کے حصول کی کوشش نہیں کی۔
نامہ نگار آصف فاروقی کے مطابق پرویز مشرف کے ترجمان چوہدری فواد نے کہا کہ سابق صدر نے وکی لیکس پر شائع ہونے والی یہ تفصیل پڑھ لی ہے جس پر ان کا تبصرہ ہے کہ ان کے خلاف پاکستان میں کوئی مقدمہ یا کیس نہیں تھا جس کی معافی کے لیے وہ امریکی سفیر یا کسی اور کے ذریعے کوششیں کرتے۔ ’میرے خلاف کوئی مقدمہ نہیں تھا اور نہ ہی میں نے کسی مقدمے میں حکومت سے کوئی ڈیل کی تھی اس لیے مجھے کسی سے معافی مانگنے یا ایسا کرنے کی کوشش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی‘۔
سابق صدر نے البتہ کہا کہ ان کی سلامتی کے بارے میں دنیا کے مختلف رہنماؤں کے ذہنوں میں تشویش رہی ہے اور وہ اپنے طور پر اس تشویش کو دور کرنے کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment