وکی لیکس کی جانب سے جاری ہونے والی تازہ ترین سفارتی کیبلز میں سنہ دو ہزار سات سے دو ہزار نو کے درمیان برطانیہ کی فوجی کارروائی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
سفارتی دستاویزات کے مطابق امریکی اہلکاروں اور افغانستان کے صدر حامد کرزئی کو یقین تھا کہ برطانوی فوج ہلمند کے صوبے کوتنہا محفوظ نہیں بنا سکتی۔
افغان صدر کے بارے میں اطلاع ہے کہ انھوں نے کہا کہ جب صوبے میں امریکی میرینز روانہ کیے گئے تو انھیں اطمینان ہو گیا۔سفارتی دستاویزات کے مطابق امریکی اہلکاروں اور افغانستان کے صدر حامد کرزئی کو یقین تھا کہ برطانوی فوج ہلمند کے صوبے کوتنہا محفوظ نہیں بنا سکتی۔
سنہ دو ہزار ایک سے اب تک افغانستان میں فوجی کارروائیوں کے دوران تین سو پینتالیس برطانوی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس علاقے میں منشیات کا کارروبار کرنے والوں کے لیے دروازے کھل گئے اور اب یہ بتانا ناممکن ہے کہ منشیات کا دھندا کرنے والے کون ہیں اور باغی کون
جنرل میکنیل
ان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ انھوں نے کہا برطانوی فوج نے ’غلط‘ تدبیر سے ہلمند میں منشیات کے کاروبار کے خلاف کارروائی کو ’برباد‘ کر دیا۔
برطانوی فوج کے خلاف تنقید سنہ دو ہزار سات سے ہو رہی تھی جب امریکی جنرل جنرل میکنیل افغانستان میں نیٹو افواج کے انچارج تھے۔
انھوں نے طالبان کے ساتھ اس معاہدے پر بھی نکتہ چینی کی جس کے تحت برطانوی فوجیوں کو سنہ دو ہزار چھ میں موسیٰ قلعہ سے ہٹ جانا تھا۔ جنرل میکنیل کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے ’اس علاقے میں منشیات کا کارروبار کرنے والوں کے لیے دروازے کھل گئے اور اب یہ بتانا ناممکن ہے کہ منشیات کا دھندا کرنے والے کون ہیں اور باغی کون۔‘
امریکی سفارت خانے سے بھیجی جانے والی سنہ دو ہزار آٹھ کے آخر کی ایک دستاویز کے مطابق ’ہمارے اور صدر کرزئی کے درمیان اتفاق ہو گیا ہے کہ برطانوی فوجی امریکی مدد کے بغیر ہلمند صوبے کو محفوظ نہیں بنا سکتے۔‘
ایک اور دستاویز میں کہا گیا کہ سابق افغان وزیرِ خارجہ نے یہ کہتے ہوئے ہلمند میں اضافی دو ہزار برطانوی فوجی بھیجنے کے حکم پر مایوسی کا اظہار کیاکہ وہ (برطانوی فوجی) امریکی فوجیوں کی طرح لڑنے کے لیے متحرک نہیں۔
دسمبر سنہ دو ہزار آٹھ امریکی سینیٹر جان میکین کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ برطانوی سالاری میں ہلمند میں کی جانے والی کارروائی کو مزید مؤثر اور مضبوط بنانے کے لیے امریکی میریز بھیجے جا رہے ہیں۔ انھوں نے اس اجلاس میں یہ ’قصہ بھی سنایا جس میں ہلمند کی ایک خاتون نے ان سے کہا کہ برطانوی فوجی واپس لے لیں اور ہمیں امریکی فوجی دے دیں۔‘
برطانیہ کے اخبار گارڈین کے مطابق ہلمند میں برطانوی فوج پر تنقید کا محور سنگین میں سکیورٹی قائم کرنے میں ناکامی تھی۔
ہلمند میں بھیجے جانے والے پہلے جنگی گروپ کے سابق کمانڈر کرنل سٹیورٹ ٹوٹل کا کہنا ہے کہ وکی لیکس کی جاری کردہ سفارتی دستاویزات بہت زیادہ بر محل نہیں
کرنل سٹیورٹ ٹوٹل
بی بی سی کی دفاعی امور کی نامہ نگار کیرولائن وائٹ کا کہنا ہے کہ برطانوی فوج پر یہ تنقید اس زمانے کی ہے جب خود برطانوی کمانڈر واضح کر رہے تھے کہ انھیں مزید فوج اور وسائل درکار ہیں۔
ہلمند میں بھیجے جانے والے پہلے جنگی گروپ کے سابق کمانڈر کرنل سٹیورٹ ٹوٹل کا کہنا ہے کہ وکی لیکس کی جاری کردہ سفارتی دستاویزات بہت زیادہ بر محل نہیں۔انھوں نے کہا’یہ ایک گروہ یا اتحاد کے ذاتی خیالات ہیں جو اس عرصے سے متعلق بھی ہیں جب وسائل کی کمی کے باعث بہت سے چلینجز تھے۔اب ہم بہت زیادہ آگے بڑھ گئے ہیں۔ اب وہاں دس ہزار برطانوی فوجی اور تیس ہزار نیٹو افواج ہیں اور نیٹو نے صورتِ حال کو اپنے قابو میں کر لیا ہے۔‘
تاہم انھوں نے کہا ’میں سمجھتا ہوں کہ یہ انھوں لوگوں کے خیالات ہیں جو ہلمند میں لڑ نہیں رہے اور ضرروری نہیں کہ انھیں ان چیلینجوں کا احساس ہو جن کا سامنا کیا جا رہا ہے۔‘
تازہ ترین وکی لیکس پر تبصرہ کرتے ہوئے وزارتِ دفاع کے ایک ترجمان نے کہا ’برطانوی فوج نے سنگین میں شاندار کام کیا۔ سنگین ہمیشہ سے ایسا علاقہ رہا ہے جہاں خاص طور پر چلینج سامنے آتے ہیں۔ برطانوی فوج نے یہاں باغیوں سے لڑ کر سکیورٹی میں اضافہ کیا ہے اور کام کر کے دکھایا ہے۔‘
ترجمان نےکہا ’ہلمند بھر میں ایساف کی بہت زیادہ اضافی موجودگی میں وہی کام اب امریکی میرینز جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سنگین کے گورنر اور امریکی میرینز دونوں نے علاقے میں برطانوی فوجی کی قربانیوں کو عوامی سطح پر تسلیم کیا ہے اور انھیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
No comments:
Post a Comment