منگل کو امریکہ کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ افغان جنگ سے متعلق نوے ہزار سے زائد خفیہ معلومات کے منظرِ عام پر آنے سے ہونے والے نقصان کا اندازہ لگانے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ امریکی فوج کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں خفیہ معلومات منظرعام پر آئی ہیں۔
پینٹاگون کے ترجمان نے خفیہ معلومات کو منظرعام پر لانے کو ایک ’ مجرمانہ فعل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکی اہلکار دستاویزات کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ تعین کیا جا سکے کہ کیا انھوں نے’ طریقہ کار اور ذرائع کا نکشاف کیا ہے اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادی خطرے میں پڑ گئے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جائزے کے عمل کو اگر ہفتے نہیں تو کئی دن لگ سکتے ہیں۔‘
برطانوی اخبار گارڈین اور امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق وکی لیکس نے خفیہ معلومات پر مبنی دستاویزات انھیں اور ایک جرمن ہفت روزہ در شپیگل کو دکھائی ہیں۔
جرمن اخبار در شپیگل اور نیو یارک ٹائمز نے ویکی لیکس میں پاکستان کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کی طرف سے بارہا یقین دہانیوں کے طالبان کے ساتھ تعلقات ختم کردیے گئے ہیں پاکستان نے تعلقات ختم نہیں کیے ہیں۔
خفیہ ڈائری کے مطابق ایک طرف تو پاکستان امریکہ کا حلیف بن کر سامنے آ رہا ہے اور دوسری جانب طالبان کی مدد کر رہا ہے۔
تاہم پاکستان کے ایوانِ صدر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ منظر عام پر آئی معلومات یک طرفہ ہیں جن کی کبھی تصدیق نہیں ہو سکی۔ ’اس قسم کی رپورٹیں پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے، ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات اور خطے میں استحکام کو کوششوں سے روک نہیں سکتیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جمہوری حکومت کو پاکستان فوج پر پورا اعتماد ہے وہ ملکی قومی پالیسی کے مطابق کام کر رہی ہے۔
امریکہ، افغانستان اور پاکستان سٹریٹیجیک اتحادی ہیں اور تینوں فوجی اور سیاسی طریقے سے القاعدہ اور اس کی اتحادی طالبان کو شکست دینے کی کوشش کر رہے ہیں
حسین حقانی
منظر عام پر آئی دستاویزات کے مطابق افغاستان سے باہر پاکستان کی خفیہ ایجنسی طالبان کے سب سے بہترین ساتھی ہیں۔ دستاویزات کے مطابق افغانستان میں افغان سکیورٹی فورسز، امریکنوں اور ان کے حمائتیوں کے خلاف جنگ پاکستان ہی سے لڑی جا رہی ہے۔
جرمن اخبار ویکی لیکس دستاویزات کے حوالے سے لکھتا ہے کہ طالبان کے لیے پاکستان محفوظ پناہ گاہ ہے۔ نئے رنگروٹ پاکستان سے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں جن میں عرب، چیچن، ازبک اور یورپی مسلمان شامل ہیں۔
دستاویزات کے مطابق جنگجوؤں کے اجلاس میں آئی ایس آئی کے ارکان بھی شامل ہوتے ہیں اور خاص احکامات بھی جاری کرتے ہیں۔ ویکی لیکس کے مطابق ’ان احکامات میں افغان صدر حامد کرزئی کو ہلاک کرنے کی کوشش بھی شامل ہے۔‘
امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ ’غیر اندراج شدہ اطلاعات‘ موجودہ زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتی ہیں۔
اخبارات کے مطابق منظر عام پر لائی جانے والی معلومات میں افغان جنگ کے دوران عام شہریوں کی ہلاکتوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جنھیں پوشیدہ رکھا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ’امریکہ، افغانستان اور پاکستان سٹریٹیجیک اتحادی ہیں اور تینوں فوجی اور سیاسی طریقے سے القاعدہ اور اس کی اتحادی طالبان کو شکست دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
تازہ تنازعہ ویکی لیکس میں پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹنٹ جنرل (ریٹائرڈ) حمید گل کا ذکر ان کا نام لے کر کیا گیا ہے۔ اخبار نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ان رپورٹوں میں جتنی مرتبہ ان کا نام آیا ہے اس سے لگتا ہے کہ پاکستانی فوجی اور خفیہ ایجنسیوں کو ان میں سے چند کا علم ضرور ہوگا۔
ان پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان میں یہ کہ وہ حکمت یار اور جلال الدین حقانی نیٹ ورکس کی دوبارہ بحالی کی کوششیں، جنوری دو ہزار نو میں وانا کا دورہ تاکہ القاعدہ کے رہنما الکنی کی ڈرون حملے میں ہلاکت کا انتقام لینے کی منصوبہ بندی کی جائے اور یہ کہ وہ طالبان کو پاکستان کی بجائے افغانستان پر توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔
اخبارات کے مطابق خفیہ دستاویزات میں نیٹو نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اور ایران افغانستان میں طالبان کی مدد کر رہے ہیں۔
منظرعام پر لائی گئی معلومات کے مطابق طالبان کو ہوائی جہاز گرانے والے میزائلوں (ہیٹ سیکنگ) تک رسائی حاصل تھی۔ امریکی فوج کا ایک خفیہ مشن شدت پسندوں کی اعلیٰ قیادت کو ہلاک یا گرفتار کرنے کی مشن پر ہے۔
اخبارات کے مطابق افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے ریکارڈ پر مبنی یہ معلومات افغان جنگ کی خفیہ دستاویزات ہیں۔ یہ معلومات میدان میں موجود جونیئر افسران نے مہیا کی ہیں جو بعد میں پالیسی سازی کے عمل میں استعمال ہوتی ہیں۔
اخبارات کے مطابق منظر عام پر لائی جانے والی معلومات میں افغان جنگ کے دوران عام شہریوں کی ہلاکتوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جنھیں پوشیدہ رکھا گیا۔
یہ شہری طالبان کی جانب سڑک کے کنارے نصب بم اور نیٹو کی ناکام کارروائیوں کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ طالبان رہنماوں کے خلاف امریکی فوج کی خفیہ کارروائیوں کی تفصیل شامل ہے۔
منظرعام پر لائی گئی معلومات کے مطابق طالبان کو ہوائی جہاز گرانے والے میزائلوں (ہیٹ سیکنگ) تک رسائی حاصل تھی۔ امریکی فوج کا ایک خفیہ مشن شدت پسندوں کی اعلیٰ قیادت کو ہلاک یا گرفتار کرنے کی مشن پر ہے۔
بی بی سی کی سفارتی امور کی نامہ نگار کا کہنا ہے کہ اگرچہ دستاویزات میں چونکا دینے والی معلومات نہیں ہیں لیکن اس سے افغان جنگ کی مشکلات اور عام شہریوں کی ہلاکتوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔
ایسی خفیہ معلومات، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں، اور اس سے ہماری قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے
جیمز جونز
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیمز جونز کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ ایسی خفیہ معلومات، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں، اور اس سے ہماری قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ منظرعام پر لائی گئی دستاویزات سال دو ہزار چار سے سال دو ہزار نو تک کی ہیں اور اس وقت تک صدر براک اوباما نے افغانستان کے بارے میں نئی پالیسی کا اعلان نہیں کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے بیان کے مطابق پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے ’دہشت گردوں کے خلاف اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی کا عمل جاری رکھیں۔‘
دوسری جانب ایک امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ وکی لیک کی جانب سے جاری ہونے والی ان دستاویزات میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ’ہم آئی ایس آئی اور پاکستان میں محفوظ مقامات ہیں کے بارے میں کئی بار کہہ چکے ہیں۔‘
اہلکار کا کہنا ہے کہ منظر عام پر لائی گئی دستاویزات جنوری دو ہزار چار سے دسمبر دو ہزار نو تک کے ہیں۔ ’اور یہ وہ عرصہ ہے جس کے بعد امریکی صدر اوباما نے نئی حکمت عملی کا اعلان کیا۔‘
وکی لیکس معلومات تک رسائی کی آزادی کے لیے کام کرتی ہے اور اس حوالے سے مختلف ویڈیوز ویب سائٹ پر نشر کرتی ہے۔
No comments:
Post a Comment