سونیاگاندھی
سونیا گاندھی اپنی ذات زندگی کے متعلق خاموش رہتی ہیں
وکی لیکس کے انکشافات کے مطابق بھارت میں حکمراں جماعت کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی کے والدین راجیوگاندھی سے ان کی شادی کے حق میں نہیں تھے۔
اس کے مطابق سونیا گاندھی نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف بھارت کے سابق وزیر اعظم راجیوگاندھی سے شادی کی تھی۔
تازہ انکشافات کے مطابق محترمہ گاندھی نے اس بارے میں کلیفورنیا کے سابق گورنر آرنالڈ شوارزنیگر کی اہلیہ ماریہ شرائیور سے ہوئی ایک ملاقات کے دوران بتایا تھا۔
دلی میں امریکی سفارتخانے کے ایک سینیئر اہل کار نے چار اگست دو ہزار چھ کو لکھےگئے اپنے ایک مراسلے میں اس ملاقات کی تفصیلات واشنگٹن کو بھیجی تھیں۔
وکی لیکس کے ایک کیبل کے مطابق سونیا گاندھی عام طور پر خاموش طبع تصور کی جاتی ہیں اور اپنی ذاتی زندگی کے متعلق زیادہ کھل کر بات نہیں کرتی ہیں لیکن اس ملاقات میں انہوں نے اپنی ذاتی زندگی کے متعلق کھل کر بات کی تھی۔
اس مراسلے میں لکھا گيا تھا کہ محترمہ گاندھی نے سیاسی معاملات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بھارت میں دایاں بازو بہت مضبوط ہورہا تھا اور کانگریس کمزور ہورہی تھی۔۔۔ اسی وجہ سے گاندھی خاندان کی وراثت کو بچانے کے لیے مجبور ہوکر انہیں سیاست میں آنا پڑا۔‘
اس کیبل کے مطابق ابتداء میں ان کے سیاست میں آنے کے فیصلے سے ان کے بچے بہت خوش نہیں تھے لیکن بعد میں انہوں نے کہا ’آپ جو بھی فیصلہ کریں گی ہم اس کا ساتھ دیں گے۔‘
وزیراعظم کا عہدہ ٹھکرانے کے متعلق انہوں نے زیادہ کچھ نہیں کہا۔ وکی لیکس کے مطابق ان کا کہنا تھا ’مجھ سے اکثر اس بارے میں پوچھا جاتا ہے لیکن آپ لوگوں سے کہہ سکتی ہیں کسی روز اس پوری کہانی پر میں کتاب لکھوں گی۔‘
محترمہ گاندھ نے کہا کہ کسی دوسرے کے وزیراعظم بننے سے انہیں اچھا لگا اور اس فیصلے پر انہیں کوئی افسوس نہیں ہے۔
ماریہ شرائیور بھارت میں خواتین کے مسئلے پر بات چیت کے لیے آئی تھیں اور تین اگست دو ہزار چھ کو انہوں نے سونیا گاندھی سے ملاقات کی تھی۔
امریکی دستاویزات کے مطابق دلی میں امریکی سفارتکار نے ان کے متعلق جو تجزیہ پیش کیا ہے اس کے مطابق سونیا گاندھی اپنے خاندان کے ساتھ ہوئے حادثات کے بعد اپنی ایک ایسی شخصیت بنائی ہے جو ان کی ذاتی زندگی کو عام ہونے سے باز رکھتی ہے۔
اس کے مطابق سونیا گاندھی جب بھی اپنے شوہر راجیوگاندھی یا ساس اندرا گاندھی کے متعلق بات کرتی ہیں تو اپنے جذبات پر قابو پانے کے لیے انہیں سخت کوشش کرنی پڑتی ہے۔
اس رسالے میں لکھا گیا تھا کہ ’بہت ہی احتیاط سے بنائی گئے بھارتی تشخص کے باوجود ان کی اطالوی شخصیت، ان کی واضح عادتوں، باتوں، رکھا رکھاؤ اور دلچسپیوں میں، جھلکتی ہے۔‘
No comments:
Post a Comment