انٹرنیٹ پر خفیہ معلومات شائع کرنے والی ویب سائٹ وکی لیکس نے امریکی وزارتِ خارجہ کی ایک ایسی دستاویز شائع کی ہے جس میں سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کے پاکستانی صدر آصف علی زرداری اور عراقی وزیرِ اعظم نوری المالکی پر طنز کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔
اسی سال جاری ہونے والی ایک دستاویز میں شاہ عبداللہ نے پاکستان صدر آصف علی زرداری کو ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی اس دستاویز کے مطابق سعودی فرمانروا نے صدر زرداری کا حوالا دیتے ہوئے کہا تھا: ’اگر سر ہی گلا سڑا ہو تو اس کا اثر سارے جسم پر پڑتا ہے۔‘
اسی دستاویز میں عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے بارے میں بھی شاہ عبداللہ سے ایسے کی کلمات منسوب کیے گئے ہیں۔ اس دستاویز کے مطابق شاہ عبداللہ نے ایک عراق اہلکار سے کہا تھا کہ وہ ان سے اور عراق سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن نوری المالکی کے بارے میں ان کے دل میں ایسے کوئی جذبات نہیں ہیں۔
دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ نائن الیون کے حملوں کو تقریباًدس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی امریکہ کے باقی دنیا کے ساتھ تعلقات میں دہشت گردی کا سایہ بہت گہرا ہے۔
ان دستاویزات کے مطابق اوباما انتظامیہ ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکی کہ کون سے پاکستانیوں پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے اور کون سے عناصر پر نہیں۔
اس پیغام میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لاہور میں امریکی قونصل خانے کے باہر گھومنے والے رکشہ ڈرائیور کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ آیا وہ اپنے کرائے کا انتظار کر رہا ہے یا قونصل خانے کی طرف جانے والی سڑک کی نگرانی کر رہا ہے۔
گزشتہ دسمبر میں جاری کی جانے والی ایک اور امریکی پیغام میں کہا گیا ہے کہ سعودی باشندے اب بھی القاعدہ کی طرح کی شدت پسند تنظیموں کے سب سے بڑے مالی سرپرست ہیں۔ اسی طرح ایک اور پیغام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خلیجی ریاست قطر کے کردار کو خطے میں بدترین قرار دیا گیا ہے۔
پیغام کے مطابق قطر کے خفیہ ادارے معروف شدت پسندوں کے خلاف بھی کارروائی کرنے سے ہچکچاتے ہیں تاکہ ان پر امریکہ کا ساتھ دیتے کا الزام نہ لگایا جا سکے اور انہیں نتائج نہ بھگتنے پڑیں۔
اس سے پہلے وکی لیکس نے کہا تھا کہ کہ امریکی وزارتِ خارجہ کی خفیہ دستاویزات کی اشاعت سے قبل اس پر ہیکرز نے حملہ کر دیا ہے۔
وکی لیکس کی طرف سے سوشل میڈیا سروس ٹوئٹر پر شائع کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کے سائٹ پر ہیکرز نے ایک ایسا بڑا حملہ کیا ہے جس کے سبب یہ اپنی سروس لوگوں تک پہنچانے سے قاصر ہے۔
تاہم اس نے کہا ہے کہ ویب سائٹ کی بندش کے باوجود وہ امریکی وزارتِ خارجہ کی ان خفیہ دستاویزات کو لوگوں تک پہنچائے گا جس کا اس نے اعلان کر رکھا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ کئی اخبار بھی وہ دستاویزات شائع کریں گے جو وکی لیکس کی طرف سے انہیں پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں۔
اس سے پہلے امریکہ نے وکی لیکس کو خبردار کیا تھا کہ امریکی وزارتِ خارجہ کی خفیہ دستاویزات کے اجراء سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی اور عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہو گی اور امریکہ کے اپنے اتحادیوں سے تعلقات بگڑ سکتے ہیں۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے وکیل نے ہفتے کو وکی لیکس کے سربراہ جولین اسانش کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان دستاویزات کے اجراء سے خفیہ فوجی کارروائیاں منظر عام پر آ جائیں گی اور امریکی ساکھ کو زبردست دھچکا پہنچے گا۔
وکی لیکس امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کو بھیجنے جانے والے ڈھائی لاکھ سے زیادہ خطوط شائع کررپا ہے اور ان خطوط کی کاپیاں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز، برطانوی اخبار گارڈین اور ایک جرمن نشریاتی ادارے کو پہلے سے مہیا کر دی گئی ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ خفیہ دستاویزات کو جاری کرنا امریکی قانون کی خلاف ورزی ہو گا۔
جولین اسانش نے کہا ہے کہ امریکی حکومت کو ان دستاویزات کے جاری ہونے کے بعد جوابدہ ہونا پڑے گا جس سے وہ خوف زدہ ہے۔
ادھر امریکہ نے خفیہ دستاویزات کے حوالے سے برطانیہ سمیت متعدد ممالک کے حکام سے رابطے کیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ترکی، اسرائیل، ڈنمارک اور ناروے کی حکومتوں کو بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ ان سفارتی دستاویزات کے سامنے آنے سے ممکنہ طور پر انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے جمعہ کو کہا تھا کہ خفیہ دستاویزات کے منظرِ عام پر آنے سے امریکہ کے اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں اور اس ضمن میں حلیف ممالک کو اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق اس سلسلے میں امریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن نے چین کے علاوہ جرمنی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، فرانس اور افغانستان کے سربراہان سے بھی بات کی ہے۔
برطانوی وزیراعظم نے ایک ترجمان نے جمعہ کو کہا تھا کہ ’یقیناً حکومت کو امریکی حکام اور امریکی سفیر نے ممکنہ طور پر افشا کی جانے والی دستاویزات کے بارے میں بریفنگ دی ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جب تک یہ دستاویزات سامنے نہیں آ جاتیں اس وقت تک میں یہ اندازہ نہیں لگانا چاہتا کہ یہ کس بارے میں ہیں‘۔
No comments:
Post a Comment