وکی لیکس میں افشاء ہونے والی امریکی سفارتی دستاویزات میں سعودی عرب میں امریکی قونصل جنرل مارٹن آر کوین کی وہ خط و کتابت بھی شامل ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف تو جدہ کی سڑکوں پر کٹر وہابیت نظر آتی ہے لیکن پس پردہ امراء کے نوجوانوں کی زیر زمین شبانہ زندگی بھی تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔
سعودی عرب جیسے ملک میں یہ سب اس لیے ممکن ہو پا رہا ہے کیونکہ ان تقریبات میں یا تو کوئی سعودی شہزادہ موجود ہوتا ہے یا ایسی تقریبات کو شاہی خاندان کے کسی رکن کی سرپرستی حاصل ہونے کی وجہ سے مذہبی پولیس کچھ کر نہیں سکتی۔
قونصل جنرل مارٹن آر کوین کے مطابق جدہ میں ایک زیر زمین ہیلووین پارٹی میں جو ایک شہزادے کی رہائش گاہ پر ہوئی ڈیڑھ سو کے لگ بھگ نوجوان سعودی عورتیں اور مرد موجود تھے۔ اس ہیلووین پارٹی میں امریکی قونصل خانے کے اہلکاروں نے بھی شرکت کی۔
شراب، منشیات اور سیکس غرض یہ کہ تمام طرح کی دنیاوی ترغیبات موجود ہیں لیکن یہ سب سختی کے ساتھ بند دروازوں کے پیچھے ہو رہا ہے۔
رہائش گاہ کے اندر داخل ہونے سے پہلے شہزادے کے سکیورٹی گارڈز کی چیک پوسٹ سے گزرنے کے بعد جو منظر سامنے آیا وہ سعودی عرب سے باہر کسی بھی نائٹ کلب جیسا تھا۔ نوجوان جوڑے ناچ رہے تھے، میوزک چلانے والا ڈی جے اور ہر کوئی مخصوص لباس میں تھا۔
اس پارٹی کے لیے رقم کا انتظام مشروبات بنانے والی ایک امریکی کمپنی اور خود میزبان شہزادے نے کیا تھا۔
امر بالمعروف نہی عن المنکر نامی مذہبی پولیس کہیں دور دور تک نظر نہیں آ رہی تھی جب کہ اس پارٹی میں داخلہ سختی سے نافذ العمل مہمانوں کی لسٹ کے لحاظ سے تھا۔
ایک نوجوان سعودی تاجر کے مطابق اس طرح کی تقریبات ہمیشہ شہزادوں کے گھروں میں یا ان کی موجودگی میں ہوتی ہیں جس کی وجہ سےمذہبی پولیس کو مداخلت کا موقع نہیں ملتا۔
سعودی سلطنت میں اس وقت دس ہزار سے زائد شہزادے ہیں۔
سعودی قانون اور روایات کے مطابق شراب پر سختی سے پابندی ہے لیکن اس تقریب میں شراب وافر مقدار میں موجود تھی جسے تقریب کے لیے بنائے گئے بار سے مہمانوں کو دیا جا رہا تھا۔
امریکی قونصل جنرل لکھتے ہیں کہ اگرچہ اس تقریب میں اس بات کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا گیا لیکن کوکین اور حشیش کا استعمال ان سماجی تقریبات میں عام ہے اور دوسرے موقعوں پر دیکھا گیا ہے۔
مارٹن آر کوین کے مطابق سعودی نوجوان اس نسبتاً سماجی آزادی اور سیکس سے تفریح حاصل کرتے ہیں لیکن صرف بند دروازوں کے پیچھے اور یہ سب صرف امیروں کے لیے ہی ممکن ہے۔
No comments:
Post a Comment