Thursday, December 2, 2010

’پاکستان کے جوہری ہتھیاروں پر تشویش‘

وکی لیکس پر شائع ہونے والے امریکہ کے خفیہ سفارتی پیغامات میں خبردار کیا گیا ہے کہ’ پاکستان بڑھتے ہوئے عدم استحکام کے باوجود جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے۔‘
ایک اعلیٰ برطانوی اہلکار میرئیٹ لیسلی نے سال دو ہزار نو میں امریکی سفارت کاروں کو بتایا تھا کہ برطانیہ کو’ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی سکیورٹی اور حفاظت پر شدید تشویش ہے۔‘

اس سے سات ماہ قبل پاکستان میں تعینات امریکی سفیر این پیٹرسن نے واشنگٹن کو بتایا کہ ’ ہمارے لیے زیادہ باعث تشویش بات یہ نہیں ہے کہ ایک اسلامی دہشت گرد ایک مکمل جوہری ہتھیار کو چوری کر لے بلکہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان کی تنصیبات میں کام کرنے والا کوئی آہستہ آہستہ اتنا مواد چوری کر لے جس سے آخر میں ایک ہتھیار بن جائے۔‘
سال دو ہزار آٹھ میں امریکہ کی انٹیلیجنس بریفنگ سے متعلق ایک خفیہ پیغام میں کہا گیا کہ ’زیرِغور اقتصادی تباہی کے باوجود پاکستان اس قدر تیزی سے جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہے کہ دنیا میں کوئی اور ملک نہیں کر رہا۔ ‘
برطانوی اخبار گارڈین پر شائع ہونے والے تازہ خفیہ سفارتی پیغامات کے مطابق روس نے پاکستان سے متعلق اپنے تحفظات کا تبادلہ امریکہ اور برطانیہ سے کیا تھا۔
روس کی وزرات خارجہ کے اہلکار یوری کورولیو نے فروری میں امریکی اور برطانوی سفارت کاروں کو بتایا تھا کہ ’مذہبی عناصر پاکستان میں اقتدار حاصل نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ جوہری مواد پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش میں ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ’ اس وقت پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام سے ایک لاکھ بیس ہزار سے ایک لاکھ تیس ہزار لوگ براہ راست وابستہ ہیں اور کسی طور پر یہ ضمانت نہیں دی جا سکتی ہے کہ وہ تمام وفادار اور قابل اعتبار ہیں۔‘
انھوں نے پیغام میں کہا کہ پاکستان نے جوہری تنصیبات کی حفاظت کے لیے جن لوگوں کو بھرتی کیا تھا ان کے سخت مذہبی عقائد ہیں، اور حال ہی میں پاکستان میں تعلیمی اور ثقافتی سطح میں گراؤٹ آ رہی ہے۔
دریں اثنا امریکہ کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ اس نے اپنے ایک ڈیٹا بیس کو ملڑی نیٹ ورک سے عارضی طور پر منقطع کر دیا ہے۔ یہ قدم ان کوششوں کے تحت اٹھایا گیا ہے جن کے تحت مزید بڑی تعداد میں خفیہ سفارتی پیغامات کو منظر عام پر آنے سے روکنا ہے۔
امریکہ نے خفیہ معلومات کو منظر عام پر لانے کی مذمت کی ہے۔

No comments:

Post a Comment