Sunday, July 26, 2020

saudi government in conspiracy urdu

سعودی عرب میں محلاتی سازشیں عروج پر ہیں۔ یوں تو سلمان بن عبدالعزیز کے فرماںروا بننے کے بعد آل سعود خاندان میں مختلف طرح کی سازشیں چل رہی ہیں۔ یہ سازشیں اس وقت مزید شدت اختیار کر گئیں، جب سلمان بن عبدالعزیز نے ماضی کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو نیا ولی عہد بنانے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد آل سعود کے شہزادوں میں اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوگئی۔ محمد بن سلمان نے اپنے اقتدار کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے کئی اقدامات انجام دیئے، جس میں ولی عہد کے دعوے دار یا ممکنہ شہزادوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے تخت شہنشاہی سے دور رکھنے کے لیے ان کی گرفتاریاں، جلاوطنیاں اور بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے۔

آلِ سعود خاندان میں یہ رسہ کشی اس وقت مزید شدت پکڑ گئی، جب سعودی فرماںروا سلمان بن عبدالعزیز بیماری کیوجہ سے ہسپتال منتقل ہوئے ہیں۔ ان کی صحت کے بارے میں متضاد خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ تاہم سعودی وکی لیکس ویب سائیٹ میں ایک سعودی باخبر ذریعے کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سلمان بن عبدالعزیز کے بعد بادشاہی محل میں حالات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ بن سلمان صورت حال کو اپنے حق میں موڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے قریبی ساتھیوں کو اگلے مرحلے کیلئے تیاریاں مکمل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ باخبر ذرائع نے اس بات کی تائید کی ہے کہ سلمان بن عبدالعزیز کے مریض ہونے سے لیکر اب تک بن سلمان نے شاہ سلمان سے ملاقات نہیں کی ہے


ان کا آخری رابطہ ڈونالڈ ٹرامپ سے ہوا تھا، جن کی حکومت بن سلمان کی بادشاہت تک پہنچنے کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔ صورت حال کیا رخ اختیار کرتی ہے، ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن ماہرین اس پر متفق ہیں کہ بن سلمان کو امریکہ بالخصوص ڈونالڈ ٹرامپ کے داماد جارج کشنر کی مکمل حمایت حاصل ہے اور کوشنر نے بن سلمان کو شیشے میں اتار لیا ہے۔ شاہ سلمان کی آنکھیں بند ہونے کی دیر ہے، سعودی عرب کے شاہی تخت پر بن سلمان براجمان ہو جائیگا اور سعودی عرب کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات مکمل طور پر بحال ہو جائیں گے۔ سعودی عرب کے بعد دیگر بادشاہوں کی بھی دوڑیں لگ جائیں گی۔ 

Monday, November 25, 2019

نواز شریف کی بیماری یا مسئلہ کچھ اور ہے؟

  22 نومبر 2019 جمعے کے روز میانوالی میں مدر اینڈ چائلڈ اسپتال کے سنگ بنیاد کی تقریب کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے عمران خان نے سوال کیا کہ جہاز پر نظر پڑتے ہی مریض ٹھیک ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ رپورٹوں میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ ان کی حالت اتنی خراب ہے کہ کسی وقت بھی موت واقع ہو سکتی ہے۔

عمران خان نے یہ بھی کہا کہ جب وہ طیارے میں سوار ہو رہے تھے تو انہیں دیکھ کر میں نے ان کی میڈیکل رپورٹ سامنے رکھ لی۔ رپورٹ میں 15 بیماریاں لکھی تھیں اور خطرناک حالت بتائی گئی تھی۔ میں نے کہا کہ اللہ تیری بڑی شان ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ ان کا علاج پاکستان میں نہیں ہو سکتا۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ کیا جہاز دیکھ کر مریض ٹھیک ہو گیا یا پھر لندن کی ہوا لگی تو ٹھیک ہو گیا۔

چین میں اویغور مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی بنیادی وجوہات

چین کی جانب سے بعض مسلم اقلیتی فرقوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف تنقید میں اضافہ ہوا ہے۔
چین مسلم اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو جنگی قیدیوں کے کیمپ (انٹرنمنٹ کیمپ) میں رکھا گیا ہے۔
اگست میں اقوام متحدہ کی کمیٹی کو معلوم ہوا کہ چین کے مغربی علاقے سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں اور دیگر مسلم فرقوں کے دس لاکھ افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے اور ان کی 'ری ایجوکیشن' یعنی ازِسر نو تعلیمی پروگرام کے تحت ان کی تربیت کی جا رہی ہے۔
یہ دعوے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے کیا ہے لیکن چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ دریں اثناء سنکیانگ میں رہنے والے افراد کے خلاف جابرانہ نگرانی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
یہاں ہم ان کے بارے میں آپ کو چند بنیادی باتیں بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اویغور کون ہیں؟



یہ نسلی طور پر ترکی النسل مسلمان ہیں اور یہ چین کے مغربی علاقے میں آباد ہیں جہاں ان کی تعداد تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔ وہ خود کو ثقافتی اور نسلی طور پر وسط ایشیائی علاقوں سے قریب تر دیکھتے ہیں اور ان کی زبان ترک زبان سے بہت حد تک مماثلت رکھتی ہے۔
لیکن حالیہ دہائیوں میں سنکیانگ میں ہان (چین کی اکثریتی نسل) چینیوں کی بڑی آبادی وہاں منتقل ہوئی ہے اور اویغوروں کو ان سے خطرہ لاحق ہے
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اویغور نسل کے لوگوں کو شدید نگرانی کا سامنا ہے اور انھیں اپنے ڈی این اے اور بائیومیٹرکس کے نمونے دینے پڑ رہے ہیں۔ وہاں آباد جن لوگوں کے رشتہ دار انڈونیشیا، قزاقستان اور ترکی جیسے 26 'حساس' ممالک میں ہیں انھیں مبینہ طور پر حراست میں لیا جا رہا ہے اور تقریباً دس لاکھ افراد کو ابھی تک حراست میں لیا جا چکا ہے۔

Thursday, November 9, 2017

Paradise Leasks in Urdu


دستاویزات کے ایک بڑے مجموعے نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ٹیکس بچانے کے محفوظ مقامات کا انکشاف کیا ہے جس سے دولت اور طاقت کا تعلق واضح ہو جاتا ہے اور اس میں پاکستانیوں کے آف شور اکائونٹس کے معاملے میں بھی وسعت آ گئی ہے۔ نئی دستاویزات میں شوکت عزیز کا نام بھی شامل ہے جنہوں نے ایک غیر اعلانیہ ٹرسٹ میں اس وقت پیسے چھپائے جب وہ ملک کے وزیراعظم تھے۔
نئی لیک ہونے والی دستاویزات کو ’’پیراڈائز لیکس‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور ان کی وجہ سے دنیا کے کئی دارالحکومت ہل گئے ہیں۔ مجموعی طور پر ایک کروڑ 34؍ لاکھ دستاویزات جاری کی گئی ہیں۔ ان دستاویزات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ارب پتی وزیر تجارت کے روسی کمپنیوں کے ساتھ تعلقات، کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کیلئے فنڈ جمع کرنے والے سرکردہ شخص کی خفیہ سرمایہ کاری، ملکہ برطانیہ اور ملکہ اردن اور دنیا بھر کے 120؍ سیاست دانوں کی آف شور سرمایہ کاری کے حوالے سے سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔

ٹوئٹر و فیس بک کی بھی اسکروٹنی
ان دستاویزات میں سوشل میڈیا کی معروف سائٹس جیسا کہ ٹوئٹر اور فیس بُک کو بھی اسکروٹنی کے دائرے میں لایا گیا ہے جنہوں نے روس کی سرکاری کمپنیوں میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے، یہ بات ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب امریکی کانگریس ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے جعلی خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے حوالے سے تحقیقات کر رہی ہے۔ ان خبروں نے امریکی صدارتی الیکشن پر فیصلہ کن اثر مرتب کیا تھا۔
ان دستاویزات کے ذریعے عوام کو یہ معلومات بھی مل سکیں گی کہ کس طرح ایپل، اوُبر، نائیکی اور دیگر بین الاقوامی کمپنیوں کو یہ سہولتیں دی گئی ہیں کہ وہ آف شور کمپنیوں کو اپنا منافع منتقل کرکے ٹیکس سے بچ سکتی ہیں۔ نئی جاری ہونے والی دستاویزات جرمن اخبار سودوش زائتونگ نے حاصل کیں اور انہیں بین تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم (آئی سی آئی جے) کے ساتھ اور دنیا کے 67؍ ملکوں کے 380؍ دیگر صحافیوں کے ساتھ شیئر کیا۔
یہ دستاویزات آف شور خدمات فراہم کرنے والی دو کمپنیوں کی جانب سے سامنے آئی ہیں، یہ کمپنیاں برمودا (ایپل بی) اور سنگاپور (ایشیاٹک ٹرسٹ) ہیں۔ لیک کی گئی فائلوں میں کیریبین، پیسفک اور یورپ جیسا کہ اینٹیگا اور باربوڈا، دی کُک آئی لینڈ اور مالٹا میں دنیا کے انتہائی خفیہ کارپوریٹ مقامات کی سرکاری کاروباری رجسٹریاں شامل ہیں۔ان ڈیٹا بیسز میں دنیا کی مصروف ترین خفیہ حدود کی دستاویزات کا پانچواں حصہ شامل ہے۔

پاکستانی شخصیات
پاکستانیوں کے حوالے سے ملنے والا بیشتر ریکارڈ برمودا، برٹش ورجن آئی لینڈ، کیمین آئی لینڈ، مالٹا اور دیگر ملکوں سے ملا ہے۔ نیشنل انشورنس کارپوریشن لمیٹڈ (این آئی سی ایل) کے سابق چیئرمین ایاز خان نیازی، صدر الدین ہاشوانی، میاں منشاء، ڈائریکٹ ٹو ہوم (ڈی ٹی ایچ) لائسنس کی کامیاب بولی دینے والے، ظہیر الدین، سونیری بینک کے مالک نورالدین فیراستا، چیئرمین دائود ہرکولیس کارپوریشن حسین دائود اور دیگر نامور پاکستانیوں کی شناخت سامنے آئی ہے جنہوں نے آف شور سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
تقریباً 135؍ ایسے پاکستانیوں کے نام بھی سامنے آئے ہیں جن کے اپنے نام سے یا پھر آف شور کمپنیوں کے نام سے سوئس بینکوں میں اکائونٹس موجود ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم شوکت عزیز کا نام دو ٹرسٹ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک ٹرسٹ سٹی بینک بہاماس نے قائم کیا تھا جس میں وہ ڈائریکٹر تھے۔ اس ٹرسٹ کا نام سٹی ٹرسٹ لمیٹڈ تھا۔ یہ ٹرسٹ اس وقت قائم کی گئی تھی جب وہ اسی بینک میں ایگزیکٹو تھے۔
ایک اور ٹرسٹ جو انہوں نے خود قائم کی تھی اس کا نام اینٹارکٹک ٹرسٹ تھا جس کے بینیفشری ان کی اہلیہ رخسانہ عزیز اور تین بچے عابد عزیز، ماہا عزیز، لبنیٰ خان اور تانیہ خان (پوتی) ہیں۔ وزیر خزانہ بننے سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے یہ ٹرسٹ امریکی ریاست ڈیلاویئر میں قائم کی تھی جس کے انتظامات برمودا سے سنبھالے جا رہے تھے۔ شوکت عزیز نے اس ٹرسٹ کا ذکر وزیر خزانہ بننے کے وقت کیا اور نہ ہی وزیراعظم بننے کے وقت۔ اس ٹرسٹ کو ایپل بی لا فرم نے ’’ہائی رسک‘‘ (انتہائی پر خطر) کلائنٹ قرار دیا تھا۔
نیویارک میں اپنے وکیل کے توسط سے بات کرتے ہوئے شوکت عزیز کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستان میں اس ٹرسٹ کا اعلان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ اس ٹرسٹ کے سیٹلر تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا ان کی اہلیہ اور بچے نے اس کا ذکر کیا؟ تو شوکت عزیز کا کہنا تھا کہ انہیں بھی یہ ٹرسٹ ظاہر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ بینیفشری تھے نہ کہ بینیفشری اونرز (مالکان)۔ انہوں نے کہا کہ قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔
ان کے وکیل نے کہا کہ مسٹر عزیز نے اینٹارکٹک ٹرسٹ وزیر خزانہ بننے سے تھوڑا عرصہ قبل قائم کی تھی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اگر وہ مر جاتے ہیں تو ان کے اثاثے پرسکون انداز سے ان کے اہل خانہ کو مل سکیں۔ چونکہ پاکستان میں خدمات انجام دینے کے دوران ان پر ایک سے زیادہ مرتبہ جان لیوا حملہ ہو چکا تھا اس لئے ان کے خدشات بجا تھے۔
ایاز خان نیازی کا نام برٹش آئی لینڈ میں چار آف شور کمپنیوں بشمول ایک ٹرسٹ (اندلسین ڈسکریشنری ٹرسٹ) کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ باقی تین کمپنیوں کی حیثیت میں قائم کی گئیں جن میں اندلیسن اسٹیبلشمنٹ لمیٹڈ، اندلسین انٹرپرائزز لمیٹڈ اور اندلسین ہولڈنگز لمیٹڈ۔ یہ تمام کمپنیاں اور ٹرسٹ اس وقت قائم کی گئیں جب 2010ء میں ایاز خان این آئی سی ایل کے چیئرمین تھے۔
ان کے دو بھائی حسین خان نیازی اور محمد علی خان نیازی ان سرمایہ کاریوں میں بینیفشل اونرز تھے جبکہ ایاز اپنے والد عبدالرزاق خان اور اپنی والدہ فوزیہ رزاق کے ساتھ ڈائریکٹر تھے۔ پاکستان میں ہوٹلز اور تیل کی صنعت سے وابستہ ایک بڑی کاروباری شخصیت صدر الدین ہاشوانی کی بارباڈوس اور کیمین آئی لینڈ میں ایک ایک کمپنی ہے جن کے نام بائو انرجی ریسورسز (پاکستان) ایس آر ایل اور اوشن پاکستان لمیٹڈ ہیں۔
دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کمپنیوں کو ایک اور آف شور ملک ماریشیس کے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک اور لندن میں اسی بینک کی ایک اور شاخ سے بھاری قرضہ حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا گیا تھا۔ یہ دو کمپنیاں پاناما پیپرز میں سامنے آنے والی کمپنیوں کے علاوہ ہیں۔ پاناما پیپرز میں نارتھ ایٹلانٹک سروسز لمیٹڈ اور رش لیک ہوٹلز (یو ایس اے) انکارپوریٹڈ رجسٹرڈ برٹش ورجن آئی لینڈ ، کا نام سامنے آیا تھا۔
دی نیوز کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ہاشوانی کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ سال بھی تفصیلی جواب دیا تھا (جب پاناما پیپرز میں ان کی کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی تھی) اور اس تفصیلی جواب میں مزید کوئی بات شامل کرنے کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک اسٹینڈرڈ چارٹرڈ کی ماریشس برانچ سے قرضہ لینے کا سوال ہے تو یہ کاروباری نوعیت کا قرضہ تھا اور بینک کے حق میں چارج ایس ای سی پی میں رجسٹر کیا گیا تھا لہٰذا چھپانے کی کوئی بات موجود نہیں ہے۔
نشاط گروپ کے چیئرمین میاں محمد منشا کا تعلق 6؍ آف شور کمپنیوں کے سا تھ سامنے آیا ہے۔ ان میں سے چار ورجن آئی لینڈ میں ہیں جن کے نام یہ ہیں، مالین سیکورٹیز لمیٹڈ، میپل لیف انوسٹمنٹ لمیٹڈ، لائل ٹریڈنگ لمیٹڈ، ڈولین انٹرنیشنل لمیٹڈ۔ باقی دو کمپنیاں ماریشس میں ہیں جن کے نام کروفٹ لمیٹڈ اور بیسٹ ایگلز ہولڈنگز انکارپوریٹڈ ہیں۔ ان کمپنیوں کے ساتھ جڑے ایک سوئس بینک کا حوالہ بھی سامنے آیا ہے جو 1994ء کا ہے اور یہ اکائونٹ 2007ء تک قائم تھا۔ دی نیوز کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے میاں منشا کا کہنا تھا کہ 1990ء کی دہائی میں پاکستان کی سنگین سیاسی صورتحال کی وجہ سے امریکا منتقل ہونا پڑا تھا۔ یہ بینک اکائونٹ اُس وقت روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کیلئے تھا۔ بالآخر، تقریباً ایک دہائی بعد یہ اکائونٹ ختم کرکے رقم باضابطہ ذرائع سے پاکستان منتقل کر دی گئی تھی اور ان کا حوالہ ٹیکس ریٹرنز میں بھی موجود ہے۔
علائو الدین جے فیراستا، سونیری بینک کے چیئرمین ہیں اور وہ برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ایک کمپنی رینج ورتھ لمیٹڈ کے مالک ہیں۔ ان کے بھتیجے اور روپالی پولی ایسٹر لمیٹڈ کے چیئرمین نے بھی برٹش ورجن آئی لینڈ میں ایک کمپنی قائم کی ہے جس کا سوئس بینک میں ایک اکائونٹ ہے۔ دونوں نے دی نیوز کے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ امریکی عدالت میں منی لانڈرنگ کے جرم کا اعتراف کرنے والے عبید الطاف خانانی کا بھی سوئس بینک میں اپنی والدہ کے ساتھ ایک مشترکہ اکاؤنٹ سامنے آیا ہے۔
حسین داؤد کو آئیل آف مین میں رجسٹرڈ کمپنی سے تعلق میں شناخت کیا گیا تھا، اس کمپنی کانام ہرکولیس انٹرپرائزیز لمیٹیڈ تھا اور اس کے سوئس اور فرینچ بینکوں میں دو کھاتے بھی تھے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے بزنس مین ظہیر الدین جو ڈی ٹی ایچ لائسنس حاصل کرنے والے تین افراد میں سے ایک تھے، وہ برٹش ورجن آئی لینڈ میں تین کمپنیوں کے مالک تھے اور بینک آف برمودا اور ایچ ایس بی سی برمودا مین ان کے دو اکاؤنٹس تھے اور جب پیمرا میں ڈی ٹی ایچ کی بولی کیلئے کاروبار کی تفصیلات جمع کرائی گئی تھیں تو ان میں سے کسی کا بھی انہوں نے بزنس پروفائل میں اعلان نہیں کیا تھا۔
ماریشس میں قائم ایک آف شور کمپنی Balyasny SI لمیٹیڈ نے ڈیلی ٹائمز اخبار میں سرمایہ کاری کی تھی۔ یہ کمپنی مکمل طور پر شکتی ماسٹر فنڈ ایل پی کی سبسیڈری ہے۔ سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے 2011 ء میں Balyasny کے حصص کے بینی فشل اونرشپ کے بارے میں معلومات طلب کی تھیں جس کا یہ جواب موصول ہوا تھا کہ کمپنی (Balyasny) حصص کی بینی فشل مالک ہے۔ اس نے پیس پاکستان کے حصص بھی خریدے تھے جو تاثیر خاندان کی ملکیت ہے۔ دی نیوز نے تبصرے کے لئے شہریار تاثیر سے رابطہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ ایک کارپوریٹ ارینجمنٹ تھا۔ اسماعیلی برادری کے روحانی رہنما اور برطانوی شہری پرنس کریم آغا خان ریکارڈ میں دو وجوہات کی بنا پر سامنے آئے۔
وہ آئیل آف مین : براو رومیو میں ایک آف شور کمپنی کے مالک ہیں۔ اپیل بائے ریکارڈ کے مطابق کمپنی ایک چھوٹے بحری جہاز کی ملکیت کے لئے استعمال کی گئی تھی۔ اپیل بائے کے نزدیک اس کمپنی کو ہائی رسک خیال کیا جاتا ہےکیونکہ وہ اس کی موزوں نگرانی کرنے کے قابل نہیں تھے۔ ایپل بائے، آغا خان فنڈ فار اکنامک ڈولپمنٹ ایس اے کے لئے بھی کام کرتی ہے جو کہ آغا خان ڈولپمنٹ نیٹ ورک کا ایک معاون ادارہ ہے اور یہ دنیا کی سب سے بڑی نجی ڈولپمنٹ ایجنسی ہے۔

ملکہ برطانیہ سمیت غیرملکی شخصیات
دستاویزت سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ کی کوئن الزبتھ دوم نے ’’کےمین آئی لینڈ فنڈ‘‘ میں سرمایہ کاری کی تھی جس نے ایک نجی ایکویٹی کمپنی میں سرمایہ کاری کی جو برائٹ ہاؤس کو کنٹرول کرتی تھی ، یہ برطانیہ کی ایک رینٹ ٹو اون کمپنی ہے، جس پر ارکان پارلیمنٹ اور صارفین کے نگران اداروں نے تنقید کی کہ یہ ادارہ نقد ادا نہ کر سکنے والے برطانیوں کو گھریلو اشیا 99 اعشاریہ 9 فیصد سود پر فروخت کرتا ہے۔ آئی لینڈ آف جرسی میں اردن کی ملکہ بھی دو ٹرسٹ کی مالک ہیں۔
ان میں سے ایک ان کی وسیع وعریض برطانوی جائیدادوں کی مالک ہے۔ امریکا کے فور اسٹار جنرل اور ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے صدارت کے لئے پرامید ویزلے کلارک آن لائن جوا کمپنی کے ڈائریکٹر تھے جس کی آف شور معاون کمپنیاں تھیں۔ ویزلے یورپ میں ناٹو کے سپریم کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے۔ دی ایپل بائے فائلز سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے کامرس سیکرٹری ولبر رووس (Wilber Ross) ایک شپنگ کمپنی نیویگیٹر ہولڈنگز کے مالی اثاثوں کی دیکھ بھال کے لئے ’’کےمین آئی لینڈ‘‘کے ایک پورے سلسلے کو استعمال کر چکے ہیں، اس کمپنی کے اعلی ترین صارفین میں روسی حکومت سے وابستہ انرجی فرم Sibur بھی شامل ہے جس نے نیویگیٹر ہولڈنگز کو 2016 میں 23 ملین ڈالر سے زیادہ ادا کیے تھے۔
اس کمپنی( Sibur) کے مالکان میں روسی صدر ولادمیر پوٹن کے داماد کیرل شامالوف (Kirill Shamalov) کے ساتھ ایک روسی ارب پتی بھی شامل ہے جس پر امریکی حکومت نے 2014 میں پوٹن کے ساتھ تعلق کی وجہ سے پابندی عائد کردی تھی۔ یہ انکشافات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جن امریکا کے سیاسی معاملات میں روس کے خفیہ طور پر ملوث ہونے کے بارے میں تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ’’ولبر رووس‘‘ (Wilber Ross) کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ کامرس سیکرٹری نے کبھی پوٹن کے داماد یا Sibur کے دیگر مالکان سے ملاقات نہیں کی اور جب نیویگیٹر نے Sibur کے ساتھ تعلقات کا آغاز کیا تو وہ نیویگیٹر کے بورڈ میں نہیں تھے۔ Ross کے ترجمان نے کہا ہے کہ رووس نے عالمی شپنگ سے متعلق معاملات سے خود کو الگ کر لیا تھا اور وہ روسی اداروں کے خلاف عام طور پر انتظامیہ کی پابندیوں کی حمایت کر تے رہے ہیں۔
امریکا میں قائم سوشل میڈیا کے دنیا کے بڑے اداروں میں روسی سرمایہ کاری بھی ثابت ہوچکی ہے۔ روس کے ایک سرکاری ملکیت کے حامل بینک نے 2011 میں ٹوئیٹر انکارپوریٹیڈ میں 191 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی اور کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے روسی سرمایہ کار یوری ملنر(Yuri Milner) نے ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح یوری ملنر کے ذریعے فیس بک میں ایک ارب ڈالر کے قریب سرمایہ کاری کی گئی تھی اور انہوں نے حال ہی میں ٹرمپ کے داماد کے ساتھ مشترکہ طور پر قائم کی گئی رئیل اسٹیٹ کی فرم میں ساڑھے 8 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ پیراڈائز پیپرز میں دنیا بھر کی جن سرکردہ سیاسی شخصیات کے نام سامنے آئے ہیں ان میں یہ افراد شامل ہیں۔
برازیل کے وزیر زراعت بلیرو بورگز ماگی، امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد صدارتی امیدوار ویزلی کلارک، یوگنڈا کے وزیر خارجہ سیم کامبا کوتیسا، آسٹریا کے سابق چانسلر الفریڈ گوزین بائور، سعودی عرب کے سابق وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلطان بن عبدالعزیز، مونٹینیگرو کے سابق رہنما کی بہن اینا کولاریویچ، عراقی پارلیمنٹ کے سابق رکن موزر غسان شوکت، یوکرین کی پارلیمنٹ کے سابق رکن اینتون پریگوڈسکی، کینیا کی سابق وزیر زراعت سیلی کوسیگی، قازقستان کے سابق وزیر برائے توانائی و تجارت مختار ابلیازوف، قازقستان کے سابق وزیر برائے تیل و گیس سوت مینابایوف، میکسیکو کے سابق قومی سلامتی کے سیکریٹری الیہاندرو گرتیز مانیرو، گھانا کے سابق صدر کے بھائی ابراہیم ماہاما، انڈونیشیا کے سابق صدر کے بچے ٹومی اور مامیک سوہارتو، کوسٹا ریکا کے سابق صدر اور ڈبلیو ای ایف کے سابق چیف ایگزیکٹو ہوزے ماریا فیگوریس، کینیڈا کے سابق وزیراعظم ژان شیریتین، کینیڈا کے سابق وزیراعظم پال مارٹن، کینیڈا کے سابق وزیراعظم برائن ملرونی، جاپان کے سابق وزیراعظم یوکیو ہاتویاما، امریکا کی سابق وزیر تجارت پینی پرتزکر، امریکا کے سابق وزیر برائے ٹریژری کمرشل جیمز مایر ساسون، ایل سلواڈور کے سابق نائب صدر کارلوس کوئنتینیلا شمٹ، لتھوانیا کے ممبر یورپی پارلیمنٹ انتاناس گوگا، بھارتی پارلیمنٹ کے رکن رویندرا کشور (آر کے) سنہا، بھارت کے وزیر برائے ہوابازی جینت سنہا، متحدہ عرب امارات کی دو اہم شخصیات، قازقستان کے وزیر برائے دفاع اور ایرو اسپیس انڈسٹری بیبت اتامکولوف، برازیل کے وزیر خزانہ ہینرک کامپوس، زمبیا کے اپوزیشن لیڈر ہکنڈے سیمی ہشلما، پاکستان کے سابق وزیراعظم شوکت عزیز، انڈونیشیا کے اپوزیشن لیڈر پربووو سوبیانتو، نائیجیریا کی سینیٹ کے صدر بکولا ساراکی، شامی صدر بشار الاسد کے کزن رامی مکلوف، کولمبیا کے صدر ہوان مینوئل سانتوس، لائبیریا کی صدر ایلین جانسن، ترک وزیراعظم کے بیٹے ارقم اور بولنت یلدرم، اردن کی ملکہ نور الحسین، ملکہ برطانیہ الیزابیتھ دوم، امریکی وزیر تجارت ولبر لوئس راس جونیئر، امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور یوکرین کے نائب وزیر اعظم ولیری ووشچیوسکی۔
نئی سامنے آنے والی دستاویزات میں معروف امریکی پاپ سنگر میڈونا اور بونو کا نام بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز ، محمد بن نائف، شہزادہ سعود بن فہد بن عبدالعزیز السعود ، مرحوم شاہ فہد کی بیوی الجوہرا بنت ابراہیم الابراہیم وغیرہ، قطر کے وزیر خزانہ علی شریف العمادی، سابق قطری امیر حماد بن خلیفہ الثانی،  شہزادہ حمد بن جاسم بن جبرآل ثانی، آسٹریلوی وزیراعظم، ایران کے ارکان پارلیمنٹ اور 714بھارتیوں کے نام بھی شامل ہیں۔