وکی لیکس کی جانب سے فراہم کیا گیا یہ خفیہ سفارتی پیغام منگل کو امریکی روزنامہ نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا، جس کے مطابق پاکستانی صدر آصف زرداری نے امریکی نائب صدر جو بائیڈن سے گفتگو میں یہ خدشہ ظاہر کیا تھا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان اس موضوع پر گفتگو رواں برس جنوری میں ہوئی تھی۔
جرمن خبررساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق زرداری کے اس بیان سے پاکستان کی وسیع تر اثرورسوخ رکھنے والی فوج کا کردار مزید واضح ہوتا ہے، جس کی تاریخ منتخب حکومتوں کو اقتدار سے ہٹانے کے واقعات سے پُر ہے۔ مزید برآں اس بیان سے پاکستان میں منتخب حکومت کے مؤثر کردار پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔
امریکی نائب صدر جو بائیڈن
تاہم وکی لیکس کی جانب سے جاری کئے گئے اس سفارتی پیغام سے یہ واضح نہیں کہ زرداری اپنے قتل کا حوالہ دے رہے ہیں یا ان کا مطلب صرف یہ تھا کہ انہیں عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔
زرداری کا یہ بیان اسلام آباد میں امریکی سفارتی خانے کے خفیہ پیغامات کا حصہ تھا، جو وکی لیکس کی جانب سے جاری کئے گئے۔ وکی لیکس نے یہ خفیہ پیغامات ذرائع ابلاغ کے چند اداروں کو ہی جاری کئے ہیں، جن میں ’دی ٹائمز‘، ’گارجیئن‘، جرمنی کے ’ڈیرشپیگل‘ اور فرانس اور سپین کے اخبارات بھی شامل ہیں۔
امریکی حکومت کے سخت اعتراض کے باوجود اس ہفتے ڈھائی لاکھ ایسے پیغامات سامنے آرہے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا کہنا ہے کہ یہ پیغامات چوری کئے گئے ہیں اور عوامی سطح پر ان کے اجراء سے بین الاقوامی سفارتی ساکھ پر حرف آیا ہے۔
اسلام آباد میں قائم امریکی سفارت خانے کے خفیہ پیغامات کے اجراء سے امریکہ اور پاکستان کے مابین مشکل تعلقات کا پتہ بھی چلتا ہے جبکہ واشنگٹن حکومت کے اس وسوسے کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ پاکستان لاکھوں ڈالر کی عسکری اور ترقیاتی امداد کے باوجود انتہاپسندی کو شکست دینے میں کامیاب ہو گا یا نہیں۔
امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اہم حلیف قرار دیتا ہے جبکہ افغانستان کی سرحد سے ملحقہ اس کے قبائلی علاقے کو خطرناک ترین خطہ بھی قرار دیتا ہے۔ واشنگٹن حکام کا کہنا ہے کہ طالبان اور القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں اپنے دہشت گردانہ منصوبے اسے علاقے میں ترتیب دیتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment