Thursday, December 2, 2010

’الزامات دفاعی پالیسی میں ابہام کا مظہر‘


افغان جنگ کے متعلق منظر عام پر آنے والے ہزاروں امریکی خفیہ دستاویزات میں پاکستان کے طاقتور خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر سنگین الزامات سامنے آئے ہیں۔
ویکی لیکس نامی ویب سائیٹ پر افشا ہونے والی ان خفیہ دستاویزات میں پہلی بار ایسی کئی مبینہ مثالیں سامنے آئی ہیں جن میں آئی ایس آئی کو مبینہ طور پر خودکش بمباروں کی تربیت اور طالبان کو اسلحے، گاڑیوں اور زمین سے فضاء تک مار کرنے والے میزائلوں کی فراہمی سے لے کر افغان صدر حامد کرزئی اور افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کو قتل کرنے کی سازشیں کرنے جیسے سنگین الزامات لگے ہیں۔
کلِک پاکستان اب بھی طالبان کی مدد کر رہا ہے: ویکی لیکس
اہم بات یہ ہے کہ امریکہ سمیت کئی مغربی ملکوں نے ان دستاویزات پر سخت ردعمل تو ظاہر کیا ہے لیکن آئی ایس آئی پر لگنے والے الزامات کی تردید نہیں کی ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ آئی ایس آئی اور پاکستان میں القاعدہ اور طالبان کے لیے مبینہ محفوظ مقامات کے بارے میں کئی بار بات کرچکے ہیں اور یہ کہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی دہشت گردوں کے خلاف اپنی حکمتِ عملی میں ’تبدیلی‘ کا عمل جاری رکھیں۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ نے یہ بات صرف اندرونی دباؤ کو کم کرنے کے لیے کہی ہے اور اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
سیکیورٹی امور کے تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ خفیہ دستاویزات کا منظر عام پر آنا صدر اوباما کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ وہاں مِڈٹرم الیکشن نومبر میں ہونے والے ہیں اور اس سے وقتی طور پر دونوں ملکوں کے درمیان کچھ تلخی بھی پیدا ہوسکتی ہے لیکن دونوں کے باہمی تعلقات میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئے گی۔
’امریکی سی آئی اے اور آئی ایس آئی ملکر افغانستان اور دوسرے علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف کام کر رہی ہیں اور اس طرح کی جو لیکس ہیں ان اداروں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ یہ دونوں ادارے اس قسم کے جھٹکوں کو برداشت کرکے سکون کے ساتھ آگے بڑھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
ائر کموڈور (ر) خالد اقبال
’دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے شکایات ہیں کہ کس طرح دہشتگردی کے خلاف جنگ کو چلایا جائے اور یہ شکایات شاید برقرار بھی رہیں گی لیکن اس کے باوجود دونوں ملک دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تعاون کریں گے کیونکہ دونوں ہی یہ سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر انتہاپسند عناصر، چاہے وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہیں یا افغانستان میں، ان کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔‘
دفاعی امور کے تجزیہ کار ائرکموڈور (ریٹائرڈ) خالد اقبال کے خیالات بھی ملتے جلتے ہیں۔
ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کو اب یہ بات ٹھنڈے دل سے سوچنی پڑے گی کہ پاکستان جو اس قدر عسکریت پسندی کی طرف جاچکا ہے کہ عوامی سطح پر بھی اسکی اتنی حمایت نظر آتی ہے، کیا اس رجحان کو جاری رکھنا ہے یا اسے تبدیل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔
حسن عسکی رضوی
’امریکی سی آئی اے اور آئی ایس آئی مل کر افغانستان اور دوسرے علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف کام کر رہی ہیں اور اس طرح کی جو لیکس ہیں ان اداروں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی کوشش ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ شدت پسندی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور امریکہ کا تعاون اس مرحلے پر اتنا مضبوط ہے کہ یہ دونوں ادارے اس قسم کے جھٹکوں کو برداشت کرکے سکون کے ساتھ آگے بڑھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔‘
خالد اقبال کہتے ہیں کہ طالبان سمیت دوسرے شدت پسند گروہوں سے رابطے رکھنا آئی ایس آئی کے کام کا حصہ ہے۔
’خفیہ اداروں کے ہر قسم کے حالات میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ روابط ہوتے ہیں جس سے وہ انٹیلی جنس حاصل کرتے ہیں اور اس پر اپنی رپورٹیں مرتب کرتے رہتے ہیں اور یہی کردار آئی ایس آئی کا بھی ہے۔ یقیناً ان کے روابط ہر قسم کے لوگوں سے، ہر قسم کے گروہوں سے ہر جگہ پر ہیں لیکن جس طرح کے تعلق کا تاثر مغربی میڈیا دے رہا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔‘
تاہم حسن عسکری رضوی سمجھتے ہیں کہ آئی ایس آئی پر لگے تازہ الزامات پاکستان کی دفاعی پالیسی میں ایک بنیادی ابہام کو ظاہر کرتے ہیں جسے دور کیے بغیر اس طرح کے الزامات سے بچا نہیں جاسکتا۔
’ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کو اب یہ بات ٹھنڈے دل سے سوچنی پڑے گی کہ پاکستان جو اس قدر عسکریت پسندی کی طرف جاچکا ہے کہ عوامی سطح پر بھی اس کی اتنی حمایت نظر آتی ہے، کیا اس رجحان کو جاری رکھنا ہے یا اسے تبدیل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔‘
ان کے بقول یہ وہ بنیادی فیصلہ ہے جو پاکستان کے مستقبل کے کردار کا تعین کرے گا اور بدقسمتی سے ابھی تک اس سلسلے میں حتمی فیصلہ نہیں ہوپایا ہے۔

No comments:

Post a Comment