Thursday, December 2, 2010

وکی لیکس:’معلومات کہاں سے دستیاب ہوئیں‘


ماہرین کے مطابق یہ امکان بھی ہے عراق میں کسی نے ِسپرنیٹ سے کیبلز تک رسائی حاصل کر لی ہو
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق وکی لیکس پر امریکہ کے خفیہ سفارتی پیغامات کا ایک بڑا حصہ امریکی محکمہ دفاع کے نیٹ ورک ِسپر نیٹ سے حاصل کیا گیا ہے۔
میڈیا کے مطابق محکمہ دفاع کا نیٹ ورک جسے’سیکرٹ انٹرنیٹ پروٹوکول روٹر نیٹ ورک‘ یا ِسپر نیٹ ورک(Siprnet) کہا جاتا ہے حساس معلومات کے تبادلے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
یہ نیٹ ورک سنہ انیس سو نوے میں قائم کیا گیا تھا اور اسے نائن الیون کے واقعے کے بعد حساس معلومات کے آسانی سے تبادلے اور مختلف خفیہ ایجنسیوں کے درمیان رابطے کی ناکامیوں کو روکنے کے لیے وسعت دی گئی تھی۔
اس نیٹ ورک کو اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ ان خفیہ معلومات کا جو قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں، تبادلہ کیا جا سکے۔
اس نیٹ ورک کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ پچیس لاکھ امریکی فوجی اور سول لوگوں کو اس نیٹ ورک تک رسائی حاصل ہے تاہم اس نیٹ ورک کو انتہائی خفیہ معلومات کے تبادلے کے قابل نہیں کہا گیا تھا۔
اس نیٹ ورک پر موجود صرف چھ فیصد دستاویز کو جو کہ پندرہ ہزار بنتی ہیں، انتہائی خفیہ قرار دیا گیا تھا جب کہ چالیس فیصد کو خفیہ کہا گیا تھا اور بقیہ تمام کو خفیہ قرار نہیں دیا گیا تھا۔
پچیس لاکھ امریکی فوجی اور سول لوگوں کو اس نیٹ ورک تک رسائی حاصل ہے تاہم اس نیٹ ورک کو انتہائی خفیہ معلومات کے تبادلے کے قابل نہیں کہا گیا تھا۔
ِسپرنیٹ کو منظر عام پر لائی گئی دستاویزات کا ذریعہ کہا جا رہا ہے کیونکہ ان پر’ ِسپڈس یا Sipdis‘ کا ٹیگ ہے جس کا مطلب ہے کہ انہیں ِسپرنیٹ نے تقسیم کیا ہے۔
محکمہ دفاع کے اس نیٹ ورک کو استعمال کرنے کے ہدایت نامے کے مطابق ِسپرنیٹ کو استعمال کرنے والے وہی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں جو عام نیٹ صارفین کرتے ہیں لیکن اس میں وقف شدہ اور خفیہ لائنز ہوتی ہیں جو اس کو دوسرے تمام نیٹ ورک نظاموں سے الگ کر دیتی ہیں۔
محکمۂ دفاع کے مطابق اس نیٹ ورک کو سلسلہ وار سکیورٹی اقدامات کے تحت محفوظ بنایا گیا ہے جن کے مطابق اس کے تمام استعمال کنندگان کی منظوری اور ان کا رجسٹرڈ ہونا لازمی ہے۔
اس نیٹ ورک کے پاس ورڈ پیچیدہ ہیں اور انہیں ایک سو پچاس دن کے بعد لازمی طور تبدیل کرنا ہوتا ہے۔
کسی بھی محفوظ جگہ سے مخصوص کمپیوٹرز کے ذریعے ہی اس نیٹ ورک کو استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس کے کمپیوٹرز کو کسی صورت بھی اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا اور نہ ہی پہلے سے منظور شدہ انٹرنیٹ کے علاوہ اسے کسی عام انٹرنیٹ سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔
نائن الیون کے واقعے کے بعد سے دنیا بھر سے اس نیٹ ورک تک رسائی حاصل کرنا آسان ہو گیا تھا اور اب امریکی کے سفارت خانوں کی ایک بڑی تعداد ِسپرنیٹ سے منسلک ہیں۔
ِِِسپر نیٹ سے منسلک کرنے کے بعد میڈیا سٹوریج کی ڈیواسز کو خفیہ اور اس کے تمام استعمال کنندگان کا حساب کتاب رکھا جاتا ہے اور تمام استعمال کنندہ کی شناخت بھی لازم ہے۔
تاہم نائن الیون کے واقعے کے بعد سے دنیا بھر سے اس نیٹ ورک تک رسائی آسان ہوگئی تھی اور اب امریکی سفارت خانوں کی ایک بڑی تعداد ِسپرنیٹ سے منسلک ہے۔
جولائی میں انٹیلیجنس کی امریکی ماہر کیتھرین لوٹیرونیٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ موثر انٹیلیجنس نیٹ ورک کے لیے معلومات کا تبادلہ ضروری ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر معلومات کے تبادلے کے دوران معلومات کے چرائے جانے کا خطرہ ہوگا کیونکہ منفی پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی قواعد توڑ سکتا ہے۔
ابھی تک وکی لیکس کو خفیہ سفارتی معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے کسی پر الزام عائد نہیں کیا گیا ہے لیکن افغان جنگ سے متعلق خفیہ دستاویزات کے منظر عام پر آنے کے سلسلے میں کی جانے والی تحقیقات میں امریکی فوج کے خفیہ امور کے اہلکار بریڈلے مینِنگ پر توجہ مرکوز ہے۔
بریڈلے میننگ کو ایک کلاسیفائیڈ ویڈیو جاری کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور حالیہ سفارتی معلومات منظر عام پر آنے کے بعد شبہ انھی پر ہے۔
وکی لیکس نے ماضی میں تردید کی تھی کہ بریڈلے میننگ سے دستاویز وصول نہیں کی ہیں تاہم وکی لیکس کا کہنا تھا اگر وہ ان کا سورس یا ذریعہ ہیں بھی تو تکنیکی طور پر یہ جاننا ناممکن ہے۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق مبینہ طور پر سپر نیٹ کے مشکوک استعمال پر نظر رکھنے والے ایک آن لائن سکیورٹی سسٹم کا استعمال اس وقت ترک کر دیا گیا تھا جب عراق میں تعینات امریکی فوجیوں نے اس کے تکلیف دہ ہونے اور مسائل کا سبب بننے کی شکایات کی تھیں۔ ماہرین کے مطابق یہ امکان بھی ہے عراق میں کسی نے ِسپرنیٹ سے کیبلز تک رسائی حاصل کر لی ہو۔

No comments:

Post a Comment