Thursday, December 9, 2010

امریکہ سے تعلقات پر برطانیہ مضطرب رہا

فائل فوٹو
ابھی اور بہت سی دستاویزات منطرعام پر آنے کو ہیں
وکی لیکس کی جاری کردہ تازہ دستاویزات کے مطابق برطانیہ امریکہ کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات کے حوالے سے شدید اضطراب اور وسوسوں کا شکار رہا ہے۔
ایک امریکی سفارت کار نے صدر اوباما کے صدر بننے کے بعد اپنے ایک مراسلے میں برطانیہ میں پائی جانے والی اس صورت حال کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ برطانیہ میں ’شدید قیاس آرائیاں‘ جاری ہیں ۔
امریکی سفارت کاروں کی طرف سے لکھے گئے ان مراسلوں میں برطانیہ میں اقتدار میں آنے سے قبل ٹوری پارٹی کے سرکردہ ارکان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ اپنی وفاداریاں ثابت کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی تفصیلات بیان کی گئیں۔
سنہ دو ہزار آٹھ کے ایک مراسلے میں لندن میں امریکی سفارت خانے کے ڈپٹی چیف آف مشن رچرڈ لی بیرن نے قدامت پسند پارٹی کے رہنما اور آج کل برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ سے ملاقات کا حال بیان کیا ہے۔
اس ملاقات کے دوران جب یہ سوال اٹھا کہ کیا اب بھی برطانیہ اور امریکہ کے درمیان خصوصی تعلقات ہیں تو ولیم ہیگ نے جواباً کہا ہے ’ہم ایک امریکی نواز حکومت چاہتے ہیں، ہمیں اس کی ضرورت ہے اور دنیا کو اس کی ضرورت ہے‘۔
ایک سے زائد سینیئر برطانوی حکام سفارتخانے سے یہ پوچھ چکے ہیں کہ کیا صدر باراک اوباما اپنے افتتاحی خطاب میں انقلابی جنگ کے دران واشنگٹن کا ذکر کر کے برطانیہ اور امریکہ کے رشتوں کے متعلق کوئی اشارہ کر نے والے ہیں، جبکہ برطانوی اخبار اؤل آفس سے چرچل کے مجسے کے ہٹانے کے واقعے کے ذکر سے بھرے پڑے ہیں۔
لی بیرن کے ایک اور مراسلے کا جو سنہ دو ہزار نو میں لکھا گیا، عنوان تھا ’برطانیہ پوچھتا ہے کہ کیا اب بھی امریکہ سے ہمارے تعلقات کی نوعیت خصوصی ہے۔‘
وہ لکھتے ہیں ’ایک سے زائد سینیئر برطانوی حکام سفارتخانے سے یہ پوچھ چکے ہیں کہ کیا صدر براک اوباما اپنے افتتاحی خطاب میں امریکہ کی خانہ جنگ کے دوران واشنگٹن کا ذکر کر کے برطانیہ اور امریکہ کے رشتوں کے متعلق کوئی اشارہ کرنا چاہتے تھے، جبکہ برطانوی اخبار اوول آفس سے چرچل کے مجسمے کے ہٹانے کے واقعے کے ذکر سے بھرے پڑے ہیں‘۔
اس کے مطابق ’اس وقت برطانیہ میں امریکہ سے اپنے تعلقات کے حوالے سے پائی جانے والی قیاس آرائیاں معمول کی نہیں بلکہ پاگل پنے کی سی ہیں‘۔
لی بیرن نے اس مراسلے میں مشورہ دیا ہے کہ برطانیہ سے زیادہ تعاون حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے برطانیہ کو اس مخمصے میں سے نکالا جائے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’امریکہ کی عالمی ترجیحات کے لیے جس طرح برطانیہ نے اپنے مالی، دفاعی اور سفارتی وسائل مہیا کیے ہیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، برطانوی عوام کا یہ سمجھنا کہ امریکہ اس تعاون کی قدر کرتا ہے اور برطانیہ سے اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے، امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے اانتہائی اہم ہے۔‘
وکی لیکس کی ان خفیہ دستاویزات کو برطانوی اخبار گارڈین نے شائع کیا ہے جس کے مطابق کنزرویٹیو پارٹی نے، جو اب اقتدار میں ہے، امریکہ نواز پالیسی پر زور دیا تھا۔
فائل فوٹو
وکی لیکس کے انکشافات سے امریکی حکام خش نہیں ہیں
اسی طرح ایک دوسرے خط کے مطابق مسٹر ہیگ نے کنزرویٹیو پارٹی کے رہنما کیمرون، جارج آسبورن اور اپنے آپ کو ’تھیچر کی اولاد اور کٹر ایٹلانسٹ‘ یا امریکہ نواز قرار دیا۔
اس خفیہ دستاویز کے مطابق ’اپنے بارے میں مسٹر ہیگ نے کہا کہ ان کی بہن امریکی ہیں، اپنی پوری چھٹی وہ وہیں گزارتے ہیں، انہیں کی طرح اور بہت سے برطانوی بھی امریکہ کو اپنا دوسرا ملک تصور کرتے ہیں۔‘
لیہم فوکس نے عام انتخابات سے کچھ ماہ قبل امریکی سفارت کار لوئس سسمین سے ملاقات میں ’اپنی ان خواہشات کا یقین دلایا تھا کہ اگر کنزرویٹیو پارٹی اقتدار میں آئی تو وہ امریکہ کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔‘
لوئیس سسمین کے ایک مراسلے کے مطابق لیہم فوکس جو اب برطانیہ کے وزیر دفاع ہیں یقین دلایا کہ دفاعی ساز و سامان کی خریداری میں وہ اور زیادہ امریکہ نواز پالیسی اختیار کریں گے۔
اس مراسلے میں امریکی سفیر مزید لکھتے ہیں کہ لیہم فوکس نے کہا کہ ان کی جماعت کے بعض ارکان امریکہ سے تعلقات کے بارے میں اتنے پرجوش نہیں ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں امریکہ کا شراکت دار ہونا چاہیے نہ کہ امریکہ کے رحم و کرم پر۔‘
امریکی سفیر کے مطابق مسٹر فوکس نے کہا کہ وہ ان خیالات نہیں مانتے اور وہ امریکی سفارت کار کے اس بیان کو اہمیت دیتے ہیں جس میں انہوں نے برطانیہ کو برابر کا شراکت دار قرار دیا ہے۔

No comments:

Post a Comment