Monday, November 25, 2019

چین میں اویغور مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی بنیادی وجوہات

چین کی جانب سے بعض مسلم اقلیتی فرقوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف تنقید میں اضافہ ہوا ہے۔
چین مسلم اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو جنگی قیدیوں کے کیمپ (انٹرنمنٹ کیمپ) میں رکھا گیا ہے۔
اگست میں اقوام متحدہ کی کمیٹی کو معلوم ہوا کہ چین کے مغربی علاقے سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں اور دیگر مسلم فرقوں کے دس لاکھ افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے اور ان کی 'ری ایجوکیشن' یعنی ازِسر نو تعلیمی پروگرام کے تحت ان کی تربیت کی جا رہی ہے۔
یہ دعوے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے کیا ہے لیکن چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ دریں اثناء سنکیانگ میں رہنے والے افراد کے خلاف جابرانہ نگرانی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
یہاں ہم ان کے بارے میں آپ کو چند بنیادی باتیں بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اویغور کون ہیں؟



یہ نسلی طور پر ترکی النسل مسلمان ہیں اور یہ چین کے مغربی علاقے میں آباد ہیں جہاں ان کی تعداد تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔ وہ خود کو ثقافتی اور نسلی طور پر وسط ایشیائی علاقوں سے قریب تر دیکھتے ہیں اور ان کی زبان ترک زبان سے بہت حد تک مماثلت رکھتی ہے۔
لیکن حالیہ دہائیوں میں سنکیانگ میں ہان (چین کی اکثریتی نسل) چینیوں کی بڑی آبادی وہاں منتقل ہوئی ہے اور اویغوروں کو ان سے خطرہ لاحق ہے
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اویغور نسل کے لوگوں کو شدید نگرانی کا سامنا ہے اور انھیں اپنے ڈی این اے اور بائیومیٹرکس کے نمونے دینے پڑ رہے ہیں۔ وہاں آباد جن لوگوں کے رشتہ دار انڈونیشیا، قزاقستان اور ترکی جیسے 26 'حساس' ممالک میں ہیں انھیں مبینہ طور پر حراست میں لیا جا رہا ہے اور تقریباً دس لاکھ افراد کو ابھی تک حراست میں لیا جا چکا ہے۔

No comments:

Post a Comment