Monday, November 25, 2019

نواز شریف کی بیماری یا مسئلہ کچھ اور ہے؟

  22 نومبر 2019 جمعے کے روز میانوالی میں مدر اینڈ چائلڈ اسپتال کے سنگ بنیاد کی تقریب کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے عمران خان نے سوال کیا کہ جہاز پر نظر پڑتے ہی مریض ٹھیک ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ رپورٹوں میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ ان کی حالت اتنی خراب ہے کہ کسی وقت بھی موت واقع ہو سکتی ہے۔

عمران خان نے یہ بھی کہا کہ جب وہ طیارے میں سوار ہو رہے تھے تو انہیں دیکھ کر میں نے ان کی میڈیکل رپورٹ سامنے رکھ لی۔ رپورٹ میں 15 بیماریاں لکھی تھیں اور خطرناک حالت بتائی گئی تھی۔ میں نے کہا کہ اللہ تیری بڑی شان ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ ان کا علاج پاکستان میں نہیں ہو سکتا۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ کیا جہاز دیکھ کر مریض ٹھیک ہو گیا یا پھر لندن کی ہوا لگی تو ٹھیک ہو گیا۔

چین میں اویغور مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی بنیادی وجوہات

چین کی جانب سے بعض مسلم اقلیتی فرقوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف تنقید میں اضافہ ہوا ہے۔
چین مسلم اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو جنگی قیدیوں کے کیمپ (انٹرنمنٹ کیمپ) میں رکھا گیا ہے۔
اگست میں اقوام متحدہ کی کمیٹی کو معلوم ہوا کہ چین کے مغربی علاقے سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں اور دیگر مسلم فرقوں کے دس لاکھ افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے اور ان کی 'ری ایجوکیشن' یعنی ازِسر نو تعلیمی پروگرام کے تحت ان کی تربیت کی جا رہی ہے۔
یہ دعوے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے کیا ہے لیکن چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ دریں اثناء سنکیانگ میں رہنے والے افراد کے خلاف جابرانہ نگرانی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
یہاں ہم ان کے بارے میں آپ کو چند بنیادی باتیں بتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اویغور کون ہیں؟



یہ نسلی طور پر ترکی النسل مسلمان ہیں اور یہ چین کے مغربی علاقے میں آباد ہیں جہاں ان کی تعداد تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔ وہ خود کو ثقافتی اور نسلی طور پر وسط ایشیائی علاقوں سے قریب تر دیکھتے ہیں اور ان کی زبان ترک زبان سے بہت حد تک مماثلت رکھتی ہے۔
لیکن حالیہ دہائیوں میں سنکیانگ میں ہان (چین کی اکثریتی نسل) چینیوں کی بڑی آبادی وہاں منتقل ہوئی ہے اور اویغوروں کو ان سے خطرہ لاحق ہے
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اویغور نسل کے لوگوں کو شدید نگرانی کا سامنا ہے اور انھیں اپنے ڈی این اے اور بائیومیٹرکس کے نمونے دینے پڑ رہے ہیں۔ وہاں آباد جن لوگوں کے رشتہ دار انڈونیشیا، قزاقستان اور ترکی جیسے 26 'حساس' ممالک میں ہیں انھیں مبینہ طور پر حراست میں لیا جا رہا ہے اور تقریباً دس لاکھ افراد کو ابھی تک حراست میں لیا جا چکا ہے۔